Breaking

Search This Blog

Sunday, June 9, 2019

ایک بار دیکھا ہے، بار بار پڑھا ہے


محمد ظفرالدین برکاتی

مدیر اعلیٰ ماہنامہ کنزالایمان ،جامع مسجد دہلی۔۶{ FR 1588 }

ایک بار دیکھا ہے، بار بار پڑھا ہے


1998ء میں ہم دیارِ مخدوم اشرف کے معروف قصبہ جہانگیر گنج جامعہ عربیہ اظہار العلوم میں زیر تعلیم تھے، اس لئے مخدوم سمناں حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ والرضوان کے سالانہ عرس مبارک میں تین سال برابر شریک ہوئے اور بہت سے اشرفی علما ومشائخ کو قریب سے دیکھا،محفل سماع سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے لیکن حضرت مدنی میاں کو دیکھنے کی خواہش پوری نہ ہوئی۔در اصل ہمارے آبائی گائوں کے ایک مولانا عبدالشکور اشرفی (جو حضرت مدنی میاں کے مرید ہیں)سے ہم نے بارہاحضرت کا تذکرہ سناتھا، اور ہمارے لیے اعلیٰ حضرت کے ایک چہیتے سید حضرت محدث اعظم ہند کے صاحب زادہ ہونے کی نسبت بھی پرکشش تھی،اس لیے بھی ہم حضرت شیخ الاسلام کودیکھنے کے خواہش مند تھے، ہم نے چند دوستوں کے ساتھ یہ طے کیاکہ جیسے بھی ہو، آج بعد نمازِ مغرب (۲۷محرم) حضرت کے دولت کدہ رسول پور چلیںگے۔ہم لوگ پہنچے تو کسی طرح بھی داخلہ ممنوع تھا، لیکن ’’طالب علمانہ جگاڑ‘‘ سے داخل ہوگئے اور حضرت کی قیام گاہ تک پہنچ کر ایک روشن دان(جنگلہ) کے ذریعہ دیکھ ہی لیا۔ اس کے بعد جگاڑ سے دیکھنے کا طریقہ بند کردیا۔ 
دروازہ سے نکلتے وقت ایک صاحب سے ہم نے کہا کہ حضرت کی کوئی کتاب ملے گی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، باہر نکلتے ہوکہ نہیں! لیکن باہر قدم رکھتے ہی ایک آواز آئی کہ ’’لے‘‘ ہم نے پیچھے دیکھا تو بڑے صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، قریب گئے اور ہاتھ میںلیا تو دیکھا کہ ’’خطبات برطانیہ‘‘ ہے، بغیر دفتی کے۔ بہت غصہ آیا لیکن مسکراتے ہوئے لے لیا پھر بھاگ لیے۔
اس کے بعد ہم نے آپ کو نہیں دیکھا، نہ کوئی کتاب پڑھی لیکن 2010ء میں حیدر آباد سنی  سینٹر میں حاضری ہوئی تو چند کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا پھر مولانا قمر احمد اشرفی مصباحی اور مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی سے مزید کتابیں حاصل ہوئیں اور حضرت کی سب سے ضخیم کتاب ’’تفسیر اشرفی‘‘ کی صرف پہلی جلد دیکھنے کا اتفاق ہواہے لیکن اس کے تذکرے اورخوبیاں سنتے رہے ہیں۔
ہم نے اپنے بزرگ اساتذہ سے یہ بات سنی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام جب جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم تھے، اس وقت جمعرات کے ہفتہ واری بزم میں تقریر کی جب باری آتی تو آپ حصہ نہیںلیتے۔ اسی زمانے میں حضرت محدث اعظم ہند سید محمد میاں اشرفی علیہ الرحمۃ والرضوان جامعہ اشرفیہ تشریف لے گئے تو حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز اشرفی محدث مبارک پوری نے عرض کیاکہ صاحب زادے اپنی باری نہیں نبھاتے۔ حضرت محدث اعظم ہند نے فرمایاکہ 
’’حافظ صاحب! مچھلی کے بچے کو تیرنا نہیں سکھایا جاتا۔‘‘
 بڑوں کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ واقعی خطابت،اشرفی مشائخ کے گھر کی باندی ہے، ہم لوگ خطابت کے لیے مدرسہ کی تعلیم وتربیت کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن خانوادۂ اشرفیہ کے کئی ایک خطیب ایسے ہیں کہ کسی دینی ادارے سے باضابطہ تعلیم یافتہ اور فارغ نہیں لیکن خطابت! ماشاء اللہ
جانشین حضرت محدث اعظم ہند شیخ الاسلام حضرت سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی مصباحی صاحب قبلہ کو ہم ایک غنیمت اور مثالی شخصیت سمجھتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ آپ نے جب دیکھا کہ خطابت کے لیے پے درپے سفر کی وجہ سے کوئی قلمی، تحریری اور تحقیقی کام نہیں ہوپارہا ہے تو گوشہ نشینی ہی اختیار کرلی جس کا نتیجہ ہم نے دیکھا کہ کئی کتابیں جو نامکمل تھیں، مکمل ہوکر منظر عام پر آگئیں اور حضرت محدث اعظم ہند کا ادھورہ تفسیری کام بھی معیاری انداز میں کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگیا جسے ہم ’’سیدالتفاسیر‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور ’’تفسیر اشرفی‘‘ کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ حضرت مدنی میاں آزادی سے ۸سال پہلے ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے تین دور دیکھاہے، بیسویں صدی کے دو، دور آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اور پھر اکیسویں صدی جس میں آپ باحیات ہیں (اللہ آپ کو صحت مند اور عمر طویل عطا فرمائے)بلکہ تفسیری خدمات اِسی صدی میں انجام دی ہیں۔ اب بدلتے زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے مزاج ومنہاج سے آپ خوب واقف ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ان کے اثرات بھی ان کی تحریر وتقریر میں  نظرآئیںگے۔ جسے دیکھنا ہو، وہ آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرلے اور مطالعہ سے کیافائدہ ہوگا، یہ ہم بتادیتے ہیں۔
(۱)حالات کی تبدیلی سے بہت سے فروعی مسائل بدل جاتے ہیں اور فکری بے راہ روی اور عملی بحران کی وجہ سے بہت سے اضافی کام کرنے ہوتے ہیں،اسی لئے ہر دور میں ہر موضوع پر بے شمار کتابیں لکھی جاتی رہی ہیں۔حضرت محدث اعظم ہند کا ترجمہء قرآن’’معارف القرآن‘‘اور حضرت شیح الاسلام کی ’’سید التفاسیر‘‘جو کہ محدث اعظم کے شروع کیے ہوئے کام کی تکمیل ہے،اس کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔ پہلے پارےکی تفسیر حضرت محدث اعظم کے قلم سے لکھی ہوئی ہے۔دیگرپاروں کی تفسیرحضرت شیح الاسلام نے مکمل فرمائی ہے۔بے شک اردو زبان کے تفسیری ادب میں یہ ایک خوش گوار اضافہ ہے جس میں تفصیلات میں الجھے بغیر کلام الٰہی اور پیغام خداوندی تک پہنچنے کا خیال رکھا گیا ہے۔موجودہ دور میں اردو ،عربی اور فارسی سے ناواقف ایک عام قاری کا لحاظ کرتے ہوئے ہر جلد کے اخیرمیں مشکل الفاظ کے فرہنگ یعنی ڈکشنری بھی دی گئی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اپنے نام اپنے رب کے آخری پیغام کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے سید التفاسیریعنی’’ تفسیر اشرفی‘‘ کا مطالعہ بھی معاون اور مفید ہے۔
(۲)چالیس احادیث لکھنے اور معنی ومفہوم بیان کرنے کی مبارک تاریخ بڑی پرانی ہے اور چالیس احادیث لکھنے والے مولفین اور مترجمین نے کئی جہتوں سے کام کیا ہے ۔حضرت مدنی میاں نے بھی اس روایت کے تحت ماہ نامہ ’’میزان‘‘ممبئی میں اپنے قسط وار شائع ہونے والے مشکوۃ شریف کی احادیث کا انتخاب تیار کیا ہے۔ اس کا نام ہے الاربعین الاشرفی۔خانوادئہ اشرفیہ کے ایک دوسرے عالم دین حضرت سید اجمل حسین اشرفی نے بھی ’’گلشن مشکوۃ‘‘ کے نام سے منتخب احادیث کا ایک مفید مجموعہ تیار کیا ہے۔یہ دونوں ہی کتابیں ہمارے لئے معلوماتی اور مفید ہیں۔  
(۳)یہ ایک بڑا حساس اور مشکل سوال ہے کہ ’’صحابہ وتابعین اور تبع تابعین اور تمام اسلامی شخصیات یاتوروح اسلام سے خالی تھیں یاپھر اسلامی مزاج سے آشنا نہیں تھیں، اس لیے رسول اللہ کے لائے ہوئے دین اسلام کو لوگوں نے اپنے عقیدہ وعمل اور فکر وذہن سے نکال دیا، اور ایک نئے اسلام کو ماننے والے ہوگئے۔‘‘ٹھیک اسی طرح اس کا جواب بھی مشکل ہے، کیوں کہ صرف نقلی دلائل سے یہاں کام نہیں چلتا، عقلی اور مسکت الزامی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔حضرت علامہ مدنی میاں نے جماعت اسلامی کے بانی مولوی ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے اِس سوال کا جواب  عقلی اور نقلی دلائل سے دیا پھر جواب کایہ خلاصہ پیش کیا( جس کو یاد رکھناہمارے لیے ضروری ہے) کہ
 ’’جو جس درجہ اور جس مقام کا عالم شریعت ہوگا، اس کو اسی قسم کی دعوت وتبلیغ اور ہدایت واصلاح کا حق پہنچتا ہے جو، اسی مقام کے لائق ہے اور، اگر اس سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا تو یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی۔‘‘(ص۳۲)
یہ تاریخی اور فطری نوعیت کا جواب آپ کو حضرت مدنی میاں کی ۳۶ صفحاتی کتاب ’’فریضۂ دعوت وتبلیغ‘‘ میں ملے گا۔اپنی تاریخ کا مطالعہ اور حفاظت، زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔ 
(۴)قرآن حکیم میں یہودیت اور عیسائیت کے ماننے والوں کو ’’اہل کتاب‘‘ کہاگیاہے، لیکن پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ا کو آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے وہ’’اہل کتاب‘‘ بھی نہ رہے، اس لیے یہودیت اور عیسائیت دین اور مذہب نہ رہے جس پر عمل کیاجائے بلکہ یہ دونوں مذاہب ’’نظریہ‘‘ بن گئے جو، افراط وتفریط کا مجموعہ ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ’’دین‘‘ اور ’’کامل‘‘ کا استعمال بھی غیر ضروری بحث ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ہے۔
 اِس ایمان افروز حقیقت کی روشنی آپ کو حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’دین کامل‘‘ میں ملے گی اورموجودہ دور میں اہل کتاب کو ’’مومن‘‘سمجھنے،ماننے اور تاویل کرنے کی جوبات ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے کہی جا رہی ہے،اس کا خلاصہ بھی ہوجائے گا،اگرچہ کہ اس میں ان کا تذکرہ نہیں۔
(۵) الٰہ اور اللہ (الفاظ)کیاہیں اور اُن کا معنی کیاہے۔ اِ س کا مختلف معنی ومفہوم بیان کرنے والوں کی حقیقت کیاہے، ظہورِ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں الٰہ کا تصور کیاتھا، الوہیت کیاہے اور الٰہ کے اوامر کے مراتب کیاہیں۔ اِن سب بنیادی باتوں اور ایمان افروز حقائق کے ساتھ جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے کیا گل افشانیاں کی ہیں۔ سب ایک ساتھ دیکھنے کے لیے آپ حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’اسلام کا تصورِ الٰہ اور مودودی صاحب‘‘ کا مطالعہ کریں۔
ہم کو یاد آتاہے کہ اسی موضوع پر انہی مباحث کو اپنی تحریر وتحقیق کا موضوع حضرت مفتی احمدیار خاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ نے بھی بنایا ہے اور قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کا جائزہ لیاہے۔ اِن دونوں اشرفی علمائے دین کی مذکورہ کتابوں کا مطالعہ معلومات میں اضافہ اور ایمان وعقیدے میںتازگی وپختگی کے لیے مفیدہے۔
(۶) عبادت کی لفظی حقیقت کیاہے، عبادت کی حقیقت بیانی میں مودودی صاحب نے کیسی  علمی خیانتیں کی ہیں، ایک اضافی اور غیر ضروری نہیں بلکہ کس طرح کی بے وجہ کوشش کی ہے، عبد کا کیامفہوم ہے اور مودودی صاحب نے عبد کی کیاحقیقت بیان کی ہے پھر اس کے بعد عبدیت اور عبادت کاکیاخلاصہ کیا ہے، حقیقت سے ناآشنائی کی وجہ سے ان کی پریشان خیالی کا انجام کیا ہوا، مودودی صاحب کی نظر میں ایمان کیاہے اور عبادت کے حوالے سے مودودی صاحب کے مزید کیا نظریات اور خیالات ہیں، امت مسلمہ پر کس طرح انہوں نے غصہ اور بہتان کی بارش کی ہے، امت مسلمہ کے خواص پر کیوں دل برداشتہ ہونے کی زحمت اٹھائی ہے۔ خلافت وحکومت کا مودودی تصور کیاہے اور کس طرح اسلامی تصورِ حکومت وخلافت کو انہوں نے جماعت اسلامی کی خاطر’’مودود یانے‘‘ کی کوشش کی ہے۔ عبادت کے معنی اطاعت اورپرستش میںکیا فرق ہے اور مودودی صاحب نے کیا مراد لیاہے۔ 
اِن سبھی بنیادی حقیقتوں، ایمان افروز مباحث اور بہت سے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب‘‘ کا مطالعہ کریں اور معلومات میں اضافہ کریں۔
(۷)دین کا معنی ومفہوم کیاہے، دین اور جزا میں فرق کیاہے، مذہب کیا چیز ہے، ملت کسے کہتے ہیں، قرآن فہمی کے لیے بنیادی اصول کیاہیں، قرآن کی ترجمانی کے امکانات کی حد کیاہے، قرآن میں لفظ ’’دین‘‘ اور ’’اقامت دین‘‘ کے معانی کیاہیں۔ قرآن کو ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ باطنی اور دل کی آنکھ (نگاہ بصیرت) سے دیکھ کر پڑھنے کی ضرورت کیوں ہے، ایک انصاف پسند مفسر کی ذمے داری اور فرض کیاہوتاہے اور مودودی صاحب نے اپنی سطحی تفسیری روش اور فکری کج روی کی وجہ سے اِن سب بنیادی اصول کا کس طرح خون کیاہے اور تحقیقی غلطیاں کی ہیں ۔
اور بھی بہت سے سوالوں کے جواب اورشبہات کے ازالہ کے لیے آپ حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’دین اور اقامت دین‘‘ کا مطالعہ کریں۔
(۶)ایمان، اسلام اور احسان کی حقیقت اور مراتب سے واقف ہونے اور حدیث جبرئیل کے انسانی پیغام سے آشنا ہونے کے لیے حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’تعلیم دین اور تصدیق جبرئیل امین‘‘ کا مطالعہ کریں اور اپنا جائزہ لیں۔
(۸)نظریۂ ختم نبوت اور عقیدئہ خاتمیت پیغمبری کی بحث کو مولویوں کا چونچلا سمجھنے والے سادہ لوح مسلمانوں اور نام نہاد دانشوروں کے لیے بھی حضرت مدنی میاں کی ایک کتاب ایمان افروز ثابت ہوسکتی ہے اور چشم کشائی کی خدمت انجام دے سکتی ہے۔ وہ کتاب ہے ’’نظریۂ ختم نبوت اور تحذیرالناس‘‘ اس میں تردید سے زیادہ تنقید ہے اورتنقید میں بھی ذاتی اور شخصی تنقیص نہیں۔مزید یہ کہ تنقید کو آج معیوب نہیں تصور کیاجاتاہے اور جب ایمان وکفر کا مسئلہ اور گمراہی کی وضاحت وحقیقت کشائی کا مسئلہ ہو توہمیں کشادہ دلی کا ضرور مظاہرہ کرناچاہیے،اصل دانشوری اسی کا نام ہے۔
(۹) ہمارا ایمان اس وقت مکمل ہوگا جب ہم اپنی ذات ، اپنی آل اور اپنے والدین سے بھی زیادہ محمد رسول اللہ سے محبت کریں، اس ایمان افروز عقیدے پر روشنی ڈالنے والی احادیث اور بطورِ خاص مشکوٰۃ شریف کی معروف حدیث کا معنی ومفہوم معلوم کرنے کے لیے حضرت مدنی میاں کی کتاب ’’محبت رسول روح ایمان‘‘ کا ضرور مطالعہ کریں۔مقررین حضرات تو ضرور پڑھیں۔
(۱۰) اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری محدث بریلوی، ممدوح محدث اعظم ہند کے ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ پر بہت سے لوگوں نے کئی جہتوں سے اعتراض کیاہے اور ہر جہت سے ہر اعتراض کا جواب علمائے اہل سنت نے دیاہے۔حضرت مدنی میاں نے بھی یہ خدمت انجام دی ہے اور ’’امام احمدرضا قادری اور اردو تراجم قرآن‘‘ کا لسانی، تفسیری، تحقیقی، محاورہ جاتی اور فکری جائزہ لیاہے اور خوب محاکمہ اور محاسبہ فرمایاہے۔
(۱۱) دین اسلام ، اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور نبی آخرالزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے محبوب پیغمبر ہیں، اس لیے قرآن وسنت ہی شریعت الٰہی اور قانون خداوندی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کی تشریعی حیثیت کاخود ہی اعلان فرمایا ہے، اس لیے جدید اصطلاح میں ’’اسلامک لا‘‘ کی ٹرمینالوجی صحیح ہے اور ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی اصطلاح درست نہیں، کیوںکہ اسلامی شریعت جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں، یہ ان کا ذاتی اور کسی مسلم دانشور، پیر فقیر اور نبی ولی کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ خدائی قانون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم اور صاحب قرآن نبی آخرالزماں کی سیرت کی شکل میںاتارا ہے۔اس حقیقت سے واقف ہونے کے لیے آپ حضرت مدنی میاں کی معروف کتاب ’’مسلم پرسنل لا۔ یا۔ اسلامک لا‘‘ کاضرورمطالعہ کریں۔ یہ کتاب شاہ بانو کیس کے بعد سطحی اور اخباری جملوں اور تبصروں کے بعد لکھی گئی ہے۔اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا آج زیادہ ضروری ہے۔
(۱۲)اشتراکیت اور کمیونزم کیاچیز ہے، اشتراکی نظام کی کیاحقیقت ہے، خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا گھریلو جنت کے لیے ضروری ہے لیکن ایک تعلیم یافتہ خاتون کے کیا مسائل ہیں اور کیا سوالات  ہیں جن کا جواب دیا جانا ضروری ہے اور پیغمبراسلام کے تشریعی اختیارات کیا ہیں اور تشریعی حیثیت سے ہم کیا سمجھتے ہیں۔ اِن سب باتوں سے واقف ہونے کے لیے ہمیں حضرت مدنی میاں کے معلوماتی مقالات کا مجموعہ ’’مقالات شیخ الاسلام‘‘کی ورق گردانی کرنی ہوگی۔
(۱۳)ہر عاشق رسول کو ’’بارانِ رحمت‘‘ کی ضرورت ہے اور ’’پارئہ دل‘‘ کی آرزومندانہ دولت سب کے اندر موجود ہے، اس لیے حضرت مدنی میاں اخترؔ کچھوچھوی کی سخنورانہ ’’تجلیات‘‘ میں کھڑا ہوکر گنگنا ہوگا کہ 
بڑے لطیف ہیں، نازک سے گھر میں رہتے ہیں
مرے حضور مری چشم تر میں رہتے ہیں
یہ واقعہ ہے لباس بشر بھی دھوکہ ہے
یہ معجزہ ہے لباس بشر میں رہتے ہیں
خدا کے نور کو اپنی طرح سمجھتے ہیں !
یہ کون لوگ ہیں ؟ کس کے اثر میں رہتے ہیں ؟
اور پھر حضرت اخترؔ کچھوچھوی کے فکری سائبان میں بیٹھ کر بڑی سنجیدگی سے اپنی فکری بے راہ روی، عملی بحران اور حرارت عشق کی کمی کا اعلامیہ خود ہی پڑھ کر سنانا ہوگاکہ 
بجھ گئی عشق کی آگ، اندھیر ہے، وہ حرارت گئی، وہ شرارہ گیا 
دعوتِ حسن کردار بے سود ہے، تھا جو حسن عمل کا سہارا ، گیا
جس میں پاس شریعت نہ خوف خدا ،وہ رہا کیا رہا، وہ گیا کیاگیا
ایک تصویر تھی جو مٹا دی گئی ، یہ غلط ہے مسلمان مارا گیا
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts