پروفیسر ڈاکٹر غلام زرقانی
ہیوسٹن امریکہ
شیخ الاسلام امریکہ کی سرزمین پر
جہاں تک میرا قوت حافظہ رفاقت کررہاہے ، میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ مدنی میاں مدظلہ العالی کی شخصیت ان معدوے چند اکابرین اہل سنت کی ہے ، جن کے نام سے صغر سنی ہی میں میرے کان آشنا ہوئے ۔ اور جب خطابت سمجھنے کی شدبد پیداہوئی ، تو میرے لیے ان کی شخصیت کسی طوراجنبی نہیں رہی۔ پچیس تیس سالوں پہلے دنیائے خطابت پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ خطبائے اسلام عوام کے درمیان قدرے سہل موضوعات منتخب کرتے اور آسان لب ولہجہ میں خطاب کرتے ۔ بسا اوقات کسی دقیق ، علمی اور فکری عنوان پر اظہار خیال کے لیے ہمت ہوئی بھی تو اسے احباب یہ کہہ کر پس پشت ڈال دیتے تھے کہ عام لوگوں کے سروں سے اوپر گزرجائے گا اور پروگرام کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ ایسے دورمیں حضرت شیخ الاسلام مدنی میاں نے خالص علمی عناوین پر آسان ترین لب ولہجہ میں اظہار خیال کرکے عوام تو عوام ہیں ، خواص کو بھی ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیا۔ اوراس پر مستزاد یہ کہ دلائل وبراہین کوئی عام نہ ہوتے ، تاہم اظہار خیال پر بلا کی قدرت انہیں نہایت ہی عام فہم بنادیتی ۔
بہر کیف، پچھلے دس پندرہ سالوں کے درمیان شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں مدظلہ العالی نے دومرتبہ اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہمارے شہر ہیوسٹن کو مشرف فرمایاہے ۔ ایک مرتبہ توخطابت ہی کے لیے ورود مسعود ہوا، جب کہ دوسری باریوں ہی اپنے عقیدت مندوں کے اصرار پر تشریف لائے ، لیکن یہ اور بات کہ احباب نے موقع غنیمت جان کر ایک تقریب رکھ ہی لی۔ آپ نے ابتدائے سخن میں صراحت کے ساتھ فرمایا کہ اب میں نے خطابت بہت کم کردی ہے ، اس لیے احباب آئندہ خیال رکھیں کہ میری آمد پر بغیر مشورہ کیے جلسہ طے نہ کرلیں ۔ ازراہ تفنن کہنے لگے کہ اس بار میں نے آپ کی بات رکھ لی ہے اور امیدہے کہ آئندہ آپ بھی میری بات رکھیں گے ۔ حمد وصلواۃ کے بعد مشہور زمانہ کلام ’’ کیا عجب ہے کفر کو کہتے ہیں جاہل احتیاط‘‘ کے چند اشعار پڑھے ۔ عام طورپر ناظم اجلاس خطیب کے لیے ماحول سازگار بناتے ہیں ، تاہم میرے خیال میں موصوف کے لیے پہلے سے کسی ماحول سازی کی ضرورت نہیں ہے ، آپ ابتدائی اشعار کچھ اس ڈھنگ سے پڑھتے ہیں کہ سننے سنانے کا ذوق خود ہی بن جاتاہے ۔ غالبا سرنامۂ سخن قرآن وحدیث کی روشنی میں تبرکات کی اہمیت کے حوالے سے تھا، اس لیے تمام تر توجہ موضوع کے اردگرد رہی اور جب براہ راست موضوع پر گفتگو کا آغاز کیا تو حیرت واستعجاب سے ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔موصوف نے انتہائے خطابت میں حرمین طیبین ، عرفات ، صفا ومروہ ، منی ، مزدلفہ اور شعائر حج سے جس طرح اپنے موضوع پر استدلال فرمایا ، وہ آپ ہی کو زیب دیتاہے ۔ باتوں باتوں میں کہہ گئے کہ فریضۂ حج درحقیقت مالک حقیقی کی محبت میں اظہار دیوانگی ہے ۔ جس طرح ایک دیوانہ کو نہ اپنے لباس کاہوش رہتاہے ، نہ پیر وں میں اچھے جوتے کی پرواہ ، نہ عطر وخوشبو سے رغبت اور نہ ہی نرم وگداز بستر سے مطلب ، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ایک حاجی سے تقاضایہ کیا جاتاہے کہ سلے ہوئے لباس اتاردو اور عام سی چادر اوڑھ لو، جوتے موزے نہ پہنو، عطر وخوشبو سے دور رہو۔ اور جس طرح ایک محب عالم دیوانگی میں اپنے محبوب کے اردگرد گھومتارہتاہے ، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ہدایت یہ ہے کہ اپنے مالک حقیقی کی محبت میں خانہ ٔ کعبہ کے گرد طواف کرو، صفا اور مروہ کے درمیان کبھی دھیرے دھیرے چلو اور کبھی دوڑ لگاؤ، نیز میدان عرفات پہنچو تو کھلی فضا میں دونوں ہاتھ پھیلاکر گڑگڑاؤ ۔ کہتے ہیں کہ ایک دیوانہ کبھی کبھی اپنے پریشان کرنے والوں کو پتھر مارتاہے ، اسی طرح یہاں بھی کہا جارہاہے کہ لو شیطان کو پتھر بھی مارلوکہ اظہار دیوانگی کی کوئی ادا تشنہ عمل نہ رہے ۔ یقین کیجیے کہ ایک ایک نکتہ پر داد وتحسین کا یہ عالم تھا کہ سامعین ایک لمحہ کے لیے بھی چین سے بیٹھ نہ سکے ۔ کبھی زبان سے سبحان اللہ کی صدائے بلند ہورہی تھیں ، کبھی فرحت ومسرت سے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی ، کبھی حیرت واستعجاب سے پلکیں تنی جارہی تھیں اور کبھی ڈبڈباتی آنکھیں دلوں کے زیروزبر ہونے کی سرگوشیاں کررہی تھیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اختتام جلسہ پر ایک صاحب کہنے لگے کہ ان کے لیے مولانا، علامہ اور مفتی جیسے القابات ناکافی ہیں ۔ میں نے چھوٹتے ہی جواب دیا کہ اسی لیے تو ہم انہیں ’’ شیخ الاسلام‘‘ کہتے ہیں ۔
ہیوسٹن کے اپنے پہلے دورے پر موصوف نے شہر میں تین چار بڑے پروگراموں میں خطاب فرمایا، جس میں رائل ہال ، غوث اعظم مسجداور النور مسجد وغیر ہ میںہونے والے خطابات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔ اور جب دوسری بار تشریف لائے تو صرف دوپروگرامات بڑے ہوئے ایک مکہ مسجد ڈیری آشفورڈ اور دوسرا پروگرام مسجد غوث اعظم میں تھا۔ دونوں مقامات پر بہت بڑی تعداد میں سامعین نے شرکت کی۔ مغربی دنیا میں مصروف ترین زندگی کی وجہ سے عام طورپر جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو بڑے پروگرامات ہوتے ہیں ، اس لیے باقی دنوں میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں بھی محفلیں سجالیتے ہیں ۔ موصوف کے زمانۂ قیام میں بھی گھروں میں پروگرام رکھے گئے ، جہاں آپ نے نہایت ہی نپی تلی زبان میں مختصر وعظ ونصیحت فرمائی ۔ اسی طرح کی ایک گھریلونشست میں کہنے لگے کہ لوگ کچھ کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہیں ،لیکن عام طورپر اسے یوں ہی پڑھ لیا جاتاہے اور مفہوم ومعانی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ہاں اگر پڑھنے والا پوری توجہ ، انہماک اور اخلاص کے ساتھ ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن پڑھنے کی عادت بنالے ، تو اسے گناہوں سے باز رکھنے کے لیے نہ کسی ناصح کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی کسی خارجی تنبیہ کی۔ آپ ذرا اس کے مفہوم پر غورکریں تو میری بات بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے گی ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ اللہ کے نام سے شروع ، جو نہایت مہربان اور رحمت والا ہے ۔ آپ جب کوئی نیک کام کریں ، تو اتبدائے عمل پر پڑھے گئے ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ سے کمال ہم آہنگی ہے ، تاہم جب کوئی گناہ ہونے والا ہو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جائے ، تو خود بخود جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں کہ ہائے یہ میں کیا کررہاہوں ؛ عمل گناہ اور وہ بھی مالک حقیقی کے نام سے ۔اس طرح یہ خوداحتسابی ہمیں گناہوں کے دلدل میں جانے سے بچائے رکھے گی۔
کئی دنوں تک آپ کی رفاقت کے بعد میں نے محسوس کیا کہ آپ نہایت ہی سادہ لب ولہجہ میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے تھے اور وہ بھی نہایت ہی قابل قبول پیرایۂ بیان میں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی باتیں عام طورپر دلوں میں گھرکر جاتیں اور برسوں تک لطف اندوز ہونے کی سعادت میسر آتی ۔ ویسے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جس زمانے میں عوام کے سامنے گفتگوکرتے ہوئے لوگ عام طورپر مصنوعی سنجیدگی طاری کرنے میں ہی کامیابی محسوس کرتے تھے ، ایسے دور میں حضرت شیخ الاسلام مدنی میاں نے اپنی خطابت میں تک بندی ، ثقیل الفاظ اور رعب ودبدبہ جیسے سارے بناوٹی مظاہر سے بغاوت کرکے ایک نئی جہت سے دنیائے خطابت کو روشناس کیا ہے ۔ یقین نہیں آتا تو دس بیس سالوں پیشتر خبریں پڑھنے والوں سے لے کر سرکاری بیانات دینے والوں تک کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ میری باتوں میں کہاں تک صداقت ہے ۔ابھی ادھر چند سالوں سے یہ محسوس کیا جارہاہے کہ تصنع اور بناوٹ کوئی اچھی چیز نہیں ہے ، بلکہ اپنے اصلی اسلوب بیان میں ہی اظہار مدعاکیاجائے تو وہ زیادہ پر اثر ہوتاہے ۔
خیال تھا کہ کچھ دیر اور حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے حوالے سے گفتگو جاری رہتی ، لیکن فیصل آباد کالج یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اسلامیات کے نمائندہ جرنل ’’ الاحسان ‘‘ کے لیے مقالہ لکھنے میں اس قدر وقت لگ گیا کہ شیخ الاسلام کی شخصیت پر نکلنے والے زیر نظر مجلہ کی اشاعت کی تاریخ سرپر آگئی ۔ اس لیے یہی دوچار جملے کسی طور بعجلت تمام لکھ سکا ہوں ۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ میری خواہش کے عین مطابق نہ ہوسکا، تاہم یہی کیا کم ہے کہ اس بہانے حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے مداحوں کی فہرست میں کہیں کونے پر ہی سہی ، مجھ ہیچمداں کی بھی شمولیت ہوگئی ۔
No comments:
Post a Comment