Breaking

Search This Blog

Sunday, June 9, 2019

شیخ الاسلام علامہ اخترؔ کچھوچھوی کی غزلیہ شاعری


ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ

مدیرجہان نعت ہیرور

شیخ الاسلام علامہ اخترؔ کچھوچھوی کی غزلیہ شاعری 

 علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی بنیادی طور پر نعت کے شاعر ہیں مگر اُنہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیات وغیرہ میں بھی اپنے پاکیزہ اور اعلیٰ افکار کی روشنی بکھیری ہے۔ اُن کی غزلوں میں ایک خاص رکھ رکھاؤ کی کیفیت موجود ہے۔بقول ڈاکٹرامین اشرف :یہ سوال اہم نہیں ہے کہ حضرت اخترؔ نے شاعری کی شروعات غزل سے کی ہے ،نظم سے یانعت سے’’باران رحمت‘‘(نعتیہ شاعری)اور پارۂ دل (غزلیہ شاعری)کامطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اول الذکرکلام میں رچاؤ،پختگی اورالفاظ ومحاورات پرحاکمانہ قدرت زیادہ بھرپور ہے  اوراس کے مقابلہ میں فنی ہنرمندی سے بھرپور غزلوں کے علاوہ ایسی غزلیں بھی ہیںجن کا مطالعہ اس امر کاغماز ہے کہ یہی ابتدائی نقوش ہیں۔
 انہوں نے اُن سوقیانہ جذبات، مریضانہ موضوعات اور غیر مہذب افکار سے غزل کو یکسر پاک رکھا ہے جو غزل کے لئے معیوب اور باعثِ عار ہیں۔ اُن کی غزلوں میں پاکیزگی بھی ہے اور فکر کی گہرائی بھی اورذوق ونظر کی طہارت بھی۔ اُن کی غزلیں پڑھتے ہوئے جہاں ذوق جمال کی تسکین ہوتی ہے وہاں فکر کی نئی پہنائیوں سے آشنائی بھی۔ یہ خصوصیت نہ صرف انہیں دوسرے ہم عصر شعر اسے ممتاز کرتی ہے بلکہ ۱۹۶۰ کے بعد آسمانِ ادب پر روشن ہونے والے شعرا میں ایک اہم مقام بھی عطا کرتی ہے۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی  کی غزل میں ان کی سنجیدہ روی اور مزاج کی روحانی تاب قاری کو فی الفور اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ان کا کلام انہیں اِس عہد کا ایک معتبر ذہین اور اچھا شاعرثابت کرتا ہے۔ اب وہ شاعری کی اُس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں شاعری  خود شاعر کی ذات میں گم ہو جاتی ہے اور شاعر کی ذات مکمل شاعری ہو جاتی ہے۔ تبھی تو ایسے اشعار وجود میں آتے ہیں :
عشق کی اصطلاح میں ہمدم
موت کہتے ہیں مسکرنے کو
پھر اس میں آیا کہاں سے کمال رعنائی
اگر یہ کہکشاں ان کی راہ گزار نہیں
عظمت انسانیت سمجھے کوئی ممکن نہیں
خاک کا ذرہ سہی لیکن فلک آغوش ہے
علامہ اختر جذبات کی پیکر تراشی کرنے والے شاعر ہیں ۔ ان کے اسلوب میں روایتی شاعری کی مٹھاس اور لہجے میں تر و تازگی اور فکر و خیال کی بے شمار نیرنگیاں موجود ہیں ۔ چاہے وہ حمد ہو ، نعت ہو ، غزل ہو یا نظم۔ 
علامہ اخترؔ نے ہر صنف میں ندرت بیاں کے جوہر دکھائے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ نعت کےشاعر ہیں ۔ معزز علمی و ادبی گھرانے سے تعلق ہونے کی بنا پر فن شعر و ادب انھیں وراثت میں مل گیا لیکن ان کا طبعی میلان خود آفریدہ ہے۔ کسی شاعر کے گھر جنم لینے والا بچہ خود بھی شاعر ہو قطعی ضروری نہیں ۔ یہ تو بس خدا کی شان کریمی ہے کہ جسے چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ علامہ اختر نے جو شاعری کی ہے وہ وِجدان کے بل بوتے پر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں اثر آفرینی موجود ہے۔ انداز بیاں یکسر سادہ و سلیس ہے۔ مگر فکر کی اڑان اپنی آغوش میں آفاقیت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے خوب سے خوب تر کی تلاش کی ہے۔ **
علامہ اختر کے اشعار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اختر کی شاعری میں فنی رچاؤ کے بالمقابل جذباتیت کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے۔ لفظیات کے برتاؤ میں بھی وہ طاق نہیں ۔ ان کی شاعری شعوری و ارادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح کا بے ساختہ پن لیے ہوئے ہے جس میں احساسات کی اتھاہ گہرائیاں نظر آتی ہیں ۔ موضوعاتی نظموں میں بھی انھوں نے تغزل کی چاشنی برقرار رکھی ہے۔ بہت سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ دلنشیں انداز میں پابند اور نظمیں کہی ہیں ۔ یہ ان کی فنکاریت کی نظیر ہے۔ 
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی غزلیہ شاعری میں مجھے سب سے زیادہ وہ فضا پسند آئی جو اُن کی زندگی کے واقعات، ان کے ذاتی محسوسات اور ان کی شخصیت کے طبعی افتاد سے ابھرتی ہے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے۔ ان کے احساسات کسی عالمِ بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔ انہیں نازک چنچل، بے تاب، دھڑکتی ہوئی لہروں کو انہوں نے شعر وں کی سطروں میں ڈھال دیا ہے، اور اس کوشش میں انہوں نے انسانی جذبے کے ایسے گریز پا پہلوؤں کو بھی اپنے شعر کے جادو سے اجاگر کر دیا ہے جو اس سے پہلے اس طرح ادا نہیں ہوئے تھے :
یہ بھی ہیں چہرۂ پرنور کے پروانے دو
دوش پر کاکل خمدار کو بل کھانے دو
کہہ رہی ہے  رخ پہ بکھری ہوئی زلف حسیں
ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے
بدمست گھٹاؤ یہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے
جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے
 ا ان کی شاعری سوچ، طرز احساس اور فنی برتاؤ ہر لحاظ سے اردو شاعری کے روایتی مزاج سے یکسر مختلف ہے۔ اور اپنے اندر انفرادی رنگ و روپ رکھتی ہے۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی  کے اسلوب، لہجے اور موضوعات کی انفرادیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کی شاعری سب سے الگ پہچانی جاتی ہے۔ نعتوںکے مجموعوں سے قطع نظرصرف ’’پارۂ دل‘‘ پڑھ جائیے، یہ حقیقت پہلی نظر میں سامنے آئے گی ۔
یہ بھی ہیں چہرۂ پرنور کے پروانے دو
دوش پر کاکل خمدار کو بل کھانے دو
کہہ رہی ہے  رخ پہ بکھری ہوئی زلف حسیں
ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے
بدمست گھٹاؤ یہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے
جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے
اپنی شاعری کو زندگی کی معنویت سے آشنا کرنے میں علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی  کے براہ راست حسی تجربوں کا بڑا دخل رہا ہے۔ یہ حسی تجربے بھی محض سرسری نہیں ہیں بلکہ ماضی کے خوابوں کی صورت میں شاعر کے لاشعور کا جزو بن گئے ہیں کہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ان کے بغیر اپنے حال اور مستقبل کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ زندگی کی بدلی ہوئی قدروں کے بارے میں ہر شاعر اظہار خیال کر تا ہے اور رنج و غم کا اظہار بھی کرتا ہے مگر علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے اس جشن بے چارگی کو متحرک تجسیم میں بدل دیتے ہیں :
مجھے معلوم ہے اے اشتراکیت کے فرزندو
حصار عافیت کے دعویٰ ہائے بے نشاں کب تک
ہے میری زندگی ویرانیوں کا منظر خستہ
مرے دم سے قفس صیاد کا آباد ہوتا ہے
گلہ کوئی بھی چیرہ دستیٔ صیاد سے کیا ہو
جہاں پر خود گل تر تیشۂ صیاد ہوتاہے
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی ایسی سوچ کا مابعد الطبیعاتی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کی سوچ براہ راست جیسا کہ میں نے اوپر کہا اُن کے حسی اور ذہنی تجربوں کی دین ہے۔ اپنے گرد و پیش کے عمل اور رد عمل کے نتیجے میں انہوں نے اس طرح سوچا اور اس طرح محسوس کیا ہے۔ تنہائی، عدم تحفظ زندگی کی بے معنویت، اخلاقی خلا، ذات کا کرائسس، فرد کی گمشدگی، فنا کا خوف، حالات کی یکسانیت، مشینی زندگی کی جبریت، اقدار کی شکست و ریخت، آج کی زندگی کے ایسے محرکات و مسائل ہیں جو ہر با شعور آدمی کے دل و دماغ کو ایک طرح کی الجھن میں ڈالے ہوئے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی حساس طبیعتوں نے اِن باتوں کا کچھ زیادہ ہی اثر قبول کیا ہے۔ چنانچہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی  کے یہاں بھی اس قسم کے محسوسات کا اظہار ملتا ہے اور بعض جگہ بڑی شدومد کے ساتھ ملتا ہے۔ مگر خوبی یہ ہے کہ اُن کے یہاں یہ احساسات منفی نقطۂ نظر یا نا اُمیدی کے تصورات پیدا نہیں کرتے۔ جدید شعرا کے یہاں یہ محسوسات نا اُمیدی اور مایوسی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے تھے اور زندگی اُن کے یہاں اپنی معنویت ہمیشہ کے لئے کھو چکی تھی۔ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری جدیدیت سے اسی لئے برسر پیکار نظر آتی ہے کہ ان کی شاعری زندگی کے منفی رویوں کی شاعری نہیں ہے۔ کہیں کہیں اس طرح کا لمحاتی احساس ان کے یہاں ضرور ابھرتا ہے۔ لیکن یہ احساس جب فکر و تامل کی منزلوں سے گزرتا ہوا کیف جذبی اور عاطفہ بن کر شعر میں نمودار ہوتا ہے تو مثبت رویے میں بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ اُن کے پاس ایسی قوت کا عقیدہ ہے جو مصائب کے بعد انسان کو بشارت کی ضمانت دیتا ہے۔ یاس کے اندھیرے میں امید کی چاندنی چٹکاتا ہے اور زندگی کی بے معنویت کو تازہ معنویت عطا کرتا ہے ؂
آدمی کیا ہے آدمیت کیا
حسن سیرت نہیں تو صورت کیا
فرشتہ ہو  گیا اخترؔ تو کیا ہے
کہو فرزند آدم بن کے آئے
مثبت افکار اور امید کی کرنوں سے معمور یہ وہ ذہن اور عقیدہ ہے جس نے بھیانک سے بھیانک حالات میں بھی زندگی کو علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نظر میں مہمل، لغو اور عذاب نہیں بننے دیا۔ اس عقیدے اور یقین نے ان کی شاعری میں جس طرح جگہ بنائی ہے اور اپنے فکر و فن میں انہوں نے اسے جس طرح برتا ہے وہ ثبوت ہے کہ شاعر ایک صالح اور نورانی طرز زندگی کا حامل ہے۔ اور ثبوت اس کا بھی ہے کہ علم و فضل، قرآن و سنت اور الہیات کی قوت نے اُن کی عام فکر کے ساتھ زندگی کے متعلق محسوسات کو بھی مثبت، روشن اور صحیح راہ دکھانے میں پورا تعاون پہنچایا ہے۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری وجدانی اور فکری گہرائیوں کی شاعری ہے۔
 ایسا لگتا ہے علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نے دنیاوی بدیوں اور شیطنتوں کو صوفیا کی داخلی آنکھوں سے دیکھنے کا جتن کیا ہے۔ وہ تخلیق ادب کے عصری تقاضوں سے باخبر ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری نئے اخلاقی اور انسانی اسباق کا خزینہ سمیٹے ہوئے ہے ؂
رنگینیٔ مجاز حقیقت نما ہوئی
منزل پہ پہونچے سلسلہ عاشقی سے ہم
عشق کی اصطلاح میں ہمدم
موت کہتے ہیں مسکرنے کو
آنکھ ہے اشک باریوں کے لئے
دل ہے چوٹوں پہ چوٹ کھانے کے لئے


No comments:

Post a Comment

Popular Posts

Popular Posts