شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں کا زورِاستدلال
غلام مصطفی نعیمی(مدیر اعلیٰ سوادِاعظم دہلی)
جانشین محدث اعظم ہند،رئیس المحققین،شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں دامت برکاتہم العالیہ کی ذاتِ گرامی اس شجر سایہ دار کی مانند ہے جہاں گردش زمانہ کی سختیوں کے ستائے ہوئے افراد راحت وسکون کا احساس پاتے ہیں، جدید مسائل کے ہوشربا طوفان کے آگے جب بڑے بڑے محققین حیران وپریشان ہوتے ہیں تو شیخ الاسلام کا نام نامی کسی تازہ ہواکے خوشنما جھونکے کی طرح ملت اسلامیہ کی پژمردگی کو دور کرتا ہے،فکروفن کی باریکیوں کی تہہ تک جاتے ہوئے جب اساطین علم تھکن محسوس کرتے ہیں وہاں حضرت شیخ الاسلام کا علم موجیں مارتا ہے۔یوں حضرت شیخ الاسلام کی ہمہ جہت خوبیوں کے حامل ہیں لیکن فقیر کی محدود نگاہ میں جو چیز شیخ الاسلام کو دیگر اساطین علم سے ممتاز کرتی ہے وہ آپ کا زور استدلال ہے۔
وادی تحقیق بڑی خاردار ہوتی ہے اس لیے اکثر تحقیقات ’’خشکی‘‘کا شکار ہو جاتی ہیں مگر شیخ الاسلام کی تحریروں میں یہ عنصر دور دور تک نظر نہیں آتا ۔آپ کی تحریر دل نشیں انداز میں عوام وخواص کی دل ودماغ میں اتر جاتی ہیں ۔ع
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
چونکہ وقت کی قلت دامن گیر ہے اس لیے حضرت شیخ الاسلام کی زیادہ تصنیفات سے استفادہ کا موقع نہیں مل سکا ۔حضرت کی صرف ایک کتاب’’مقالات شیخ الاسلام‘‘ اس وقت میرے پیش نظر ہے ،جو آپ کے مختلف اوقات میں تحریر کیے گیے مضامین کا مجموعہ ہے اسی کتاب کے اقتباسات کی روشنی میں حضرت شیخ الاسلام کا زور استدلال واضح کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔
اندازِاستدلال:
عام طور پرہر قلم کا ر اپنی تحقیقات کے اثبات میں استدلالاً ان چیزوں کا خیال رکھتا ہے۔تمثیل،روایات،منقولات،محاورات اورفہم مخاطب وغیرہ ۔لیکن ان سب کا بر محل استعمال یہ عطائے خداوندی ہوتا ہے۔اور حضرت شیخ الاسلام کی تحریروں میں ان ساری چیزوں کا استعمال بہت خوبصورت طریقے پر کیا گیا ہے ۔چند مثالیں حاضر ہیں:
جماعت اسلامی سے وابستہ ایک تعلیم یافتہ خاتون نے آپ کی بارگاہ میں تین سوال بھیجے اور ان کا جواب چاہاجن میں سے ایک اہم سوال یہ ہے:
’’اسلام کا مزاج چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے اس کی اپنی حکومت قائم کریں۔کیوں کہ غیر اسلامی نظام میںمکمل اسلام پر عمل ہی نہیں ہو سکتا۔مثلاً۔۔۔نہ چور کا ہاتھ کاٹا جا سکتا ہے اور نہ حدود جاری کی سکتی ہیں،نہ سود سے بچا جا سکتا ہے،نہ جہاد کیا جا سکتا ہے،وغیرہ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ ۱۳۰۰،سو سال سے اسلام اپنے رنگ و روپ میں زمین کے کسی حصے میں نہ موجود تھا اورنہ اب ہے،اس کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے یا یہ اسلام ہی کا نقص تو نہیں؟‘‘
گہری نگاہ سے اس سوال پر نظر ڈالیں اور محسوس کریں کہ اس خاتون نے کس قدر پریشان کن سوال پوچھا ہے۔سوال کے پس منظر میں یہ بات صاف عیاں ہے کہ سائلہ کی نگاہ میں یہ بات تو ہے کہ دنیا کے نقشے پر بے شک ۵۰ سے زائد مسلم حکومتیں ہیں مگر ان میں اسلامی نظام قائم نہیں ہے،اور سائلہ اس بات کوبھی جانتی ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلام کا نظام منہاج نبوت پر قائم نہیں رہ سکا۔
اس ایک چھوٹے سے سوال میں اعتراضات کے انبار پوشیدہ ہیں ،اور ایک سوال کے ضمن میں کئی دیگر سوال منہ کھولے کھڑے ہیں۔حضرت شیخ الاسلام اپنی خداداد قوت کے مظاہرہ کرتے ہوئے بطور تمہید یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام کسی ملکی،شہری،خانگی،بیرونی،مجموعی یا انفرادی نظام زندگی کا نام نہیں بلکہ یہ ان اٹل،بے بدل اور غیر متبدل قوانینِ الہیہ کا نام ہے جس کا امین ومحافظ صحیفہ ربانیہ یعنی قرآن کریم ہے اور رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی سنت کریمہ ہے۔ہاں بلا شبہ یہ قوانین اپنے اندر ایسی جامعیت رکھتے ہیں کہ ملکی شہری،خانگی وبیرونی،مجموعی وانفرادی اور دنیوی واخروی زندگی کا واحد علاج ہیں‘‘۔(مقالات شیخ الاسلام ص۶۳)
اس تمہید ہی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسلام محض کسی نظام حکومت کا نہیں بلکہ قوانین الٰہیہ کا نام ہے جو جو ہمیشہ تبدل ازمنہ سے محفوظ رہیں گے۔ کوئی بھی صاحب خرد یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی پسپائی سے اسلام پسپا ہو گیاہے۔مسلمانوں کی تمام تر ہزیمتوںکے باوجود یہ امر مسلم ہے کہ اسلام آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اپنی اصل شکل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ سب سے زیادہ پر کشش اور سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ مسلمانوں کی پسپائی سے اسلام پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
شیخ الاسلام آگے فرماتے ہیں کہ ’’اگر نام نہاد مسلمان مختلف گروہوں اور ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے ہیں تو یہ انہیں نام نہاد مسلمانوں کی تقسیم ہے،اسلام کی تقسیم نہیں ‘‘۔اپنی بات کو مدلل کرتے ہوئے آپ نے دو آیات اور ایک حدیث پیش کی ہے ہم صرف حدیث پاک کو نقل کرتے ہیں:
حضرت امیر معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔آپ نے فرمایا ہمیشہ ایک گروہ رہے گاجو امر دین وشریعت کو برپا کرے گا،ایسے کو نہ تو اپنوں کا عدم تعاون نقصان پہنچا سکے گا اور نہ مخالفین کی مخالفت۔۔۔یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اور وہ گروہ اسی حال پر قائم رہے۔(متفق علیہ)
اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں’’ارشاد نبوی نے واضح فرما دیا کہ ہر دور میں ایک ایسی مقدس جماعت کا وجود رہے گا جو صحیح معنوں میں اسی اسلام کی حامل ہوگی اور اسی اسلام کی ترویج واشاعت میں مصروف ومنہمک رہے گی جس کی تعلیم قرآن وحدیث نے دی ہے ۔آج اسلامی حکومت دنیا کے کسی حصے میں نہیں ہے ،لیکن اسلام دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہے اور یہ حقیقت اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اسلامی حکومت کچھ اور ہے ،دین اسلام کچھ اور۔۔
آگے آپ نے سائلہ کے مزاج کے مطابق ایک سوال قائم کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ساری دنیا میں اسلام عام ہو جائے کفر بالکل نہ رہے ،برائی کا نام ونشان بھی رہے توکیا اس وقت یہ اعتراض کیا جائے گا کہ اب جہادکرنا،چوری پر ہاتھ کاٹنا،تہمت پر کوڑے لگانا جیسے قوانین پر عمل کیسے کیا جائے؟
دیکھا کس آسانی کے ساتھ شیخ الاسلام نے سائلہ کے سارے شکوک وشبہات کو تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ثابت کیا یہ آپ کے زور استدلال کی خاصیت ہے۔
ختم نبوت پر زور استدلال:
ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے،اس کا ماننا ہمارے عقائد کا جزو لاینفک ہے اور اس کا انکار صریح گمراہی وکفر ہے۔لیکن اس عقیدہ پر خیر قرن ہی سے شب خون مارنے کا آغاز ہو گیا ،جب مسیلمہ کذاب نامی ملعون نے ختم نبوت پر ڈاکہ دالنے کی کوشش کی مگر یار غار،افضل البشر بعد الانبیا حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔مگر روپ بدل بدل کر کسی نہ کسی زمانے میں یہ فتنہ جنم لیتا رہا اور ہر دور میں نبی ہاشمی کے وفادار اس فتنے کی سرکوبی فرماتے رہے۔۱۴ ویں صدی کے پر آشوب دور میں ایک بار اس فتنے نے سر اٹھایا اور اس بار اس فتنے نے غلام احمد قادیانی کا روپ اختیار کیا لیکن امام احمد رضا اور دیگر علمائے اہل سنت نے اس فتنے کو سر ابھارنے نہ دیا مگر بعد میں کچھ لوگوں کو دور کی کوڑی سوجھی اور انہوں نے راستہ بدل کر ختم نبوت پر نقب زنی اوراہل اسلام کو فریب دینے کی ناکام کوشش کی مگر! ع
ہم کوتو ہر حجاب میں آتے ہو تم نظر
دھوکہ وہ کھائے جو تمہیں پہچانتا نہ ہو
ایسی ہی ایک کوشش دیوبندی جماعت کے آرگن ’’الجمیعۃ‘‘کے سابق ایڈیٹر عثمان فارقلیط نے شبستان اردو ڈائجسٹ (نومبر۱۹۷۴ء)میں شائع ایک مضمون میں کی ۔جس میں ختم نبوت کے معنیٰ کو بدلنے اور نئی نبوت کی راہ نکالنے کی ناروا سعی کی گئی۔اس مضمون کا علمی رد لکھتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے تحقیق کے دریا بہا دیے ہیں اور اپنے زورِ استدلال سے مخالفین کا ساکت وعاجز کر دیا ۔آپ لکھتے ہیں:
یقینی باتوں کو مشکوک بنانے کا شمار اب فنون لطیفہ میں ہو چکا ہے اور اسے ریسرچ کا خوبصورت نام دیا جاتا ہے۔۔۔ارشاد قرآنی میں مذکورہ لفظ ’خاتم النبین‘کو بے جا بحث کی سولی پر لٹکا یا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حضور ’خاتم النبین‘ تو ہیں مگر!خاتم کا وہ معنیٰ نہیں ہے جو آج تک سمجھا گیا ہے۔بلکہ اس کا صحیح معنیٰ وہ ہے جس کی بنیاد پر اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی آجائے،جب بھی رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیم ہی’خاتم‘رہتے ہیں‘‘۔(ایضاً ،ص۸۳)
اس کے بعد منکرین ختم نبوت کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آپ کا سیال قلم چلتا اور گیا علم کے موتی بکھرتے چلے ۔’خاتم النبین‘کے معنیٰ کو تفاسیر واحادیث کی روشنی میں ثابت کرنے کے لیے آپ نے درج ذیل کتب کے اقتباس بطورحوالہ بیان فرمائے۔
۱،تفسیر قرطبی۔۲،تفسیر طبری۔۳،تفسیر جلالین۔۴،تفسیر نیشا پوری۔۵،تفسیر کبیر۔۶،تفسیر ابو سعود۔۷،تفسیر مدارک۔۸،تفسیر روح المعانی۔۹،تفسیر ابن کثیر۔۱۰،تفسیر روح البیان۔۱۱،تفسیر معالم التنزیل۔۱۲،تفسیر خازن۔۱۳،تفسیر احمدی(ملاجیون)۔۱۴،تفسیر غریب القرآن۔
لفظ خاتم کی تین قرأتیں:
ان ۱۴،مستند ومعتبر تفاسیر کے حوالے درج کرنے کے بعد شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں :
’خاتم النبین‘کو قاریوں نے تین طرح سے پڑھا ہے۔
۱۔خاتم النبین(اسم آلہ)بر وَزَن’عالم‘یعنی جس سے کسی کو جانا جائے۔اسی طرح ’خاتم‘جس سے کسی چیزکو چھپایا جائے۔
۲۔’خاتِم النبین‘(اسم فاعل)یعنی تمام نبیوں کا آخر۔
۳۔’ختم النبین‘(فعل ماضی)یعنی حضرت پر تمام نبیوں کا خاتمہ ہوا۔مذکورہ بالا قرأتوں میں سے کسی بھی قرأت کو اختیار کیا جائے پیغمبر اسلام پرسلسلہ نبوت کا خاتمہ لازم آتا ہے۔حتیٰ کہ خاتم(مہر)قرار دینے کی صورت میںبھی ۔اس لیے کہ مہر کسی چیز کو ختم کر دینے کے بعد ہی کی جاتی ہے کہ اب اس ملفوف اورمحدودشے میںکوئی اپنی طرف سے اضافہ نہ کر سکے‘‘۔(ایضاً،ص۹۶)
کتب تفاسیر اور طرق قرأت سے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے بعدآپ نے اس موضوع پر ۱۲،احادیث سے استدلال فرماکر منکرین ختم نبوت کے تار وپود بکھیر دیے۔
حاشیہ نشیں بھی گرفت میں:
مولانا قاسم نانوتوی کی رسوائے زمانہ کتاب’تحذیر الناس‘پر ہنگامہ مچنے کے بعد اس پر حاشیہ لگایا گیا۔یہان ہم اصل کتاب کی ایک عبارت اور اس پر لگایاگیا حاشیہ پیش کرتے ہیں۔
’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا‘(ص ۳۵)
تحذیر الناس کی اس عبارت پر یہ حاشیہ لگایا گیا
’بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جایے تو بھی خاتمیت محمدیہ میں فرق نہ آئے گا‘(ص۱۳،بر حاشیہ)
اس پر گرفت کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ
’آخرکون سی لغت ہے جس میں’پیداہو‘کو ترجمہ’فرض کیا جائے‘تحریر ہے۔پیدا ہونا اور ہے ،فرض کیا جانااور۔دونوں کے اثرات ونتائج بالکل الگ الگ ہیں۔۔۔مثلاً۔۔اگر بالفرض حاشیہ نگار صاحب کے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہو،تو وہ صاحب اولاد کہلائیں گے۔لیکن اگر بالفرض ان کے گھر میں کوئی بچہ فرض کر لیا جائے تو وہ لاولد کے لاولد ہی رہیں گے‘‘۔
غرض کہ حضرت شیخ الاسلام کی کسی بھی تحریر کو دیکھ لیں اس میںزور تحقیق کے ساتھ اعلیٰ درجے کا استدلال نظر آئے گا جس کے آگے مخالف کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور قاری نفس مسئلہ کو بخوبی سمجھ لیتا ہے ۔موجودین اکابر علما میں حضرت شیخ الاسلام اپنے اسی وصف خاص کی بنیاد پر سب سے منفرد نظر آتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment