شیخ الاسلام کی نعتیہ شاعری
پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالمجید بیدار
صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیور سٹی حیدرآباد
شاعری کو معرفت کے اظہار اور ا سی کے ساتھ ہی جذبات اور احساسات کی پیش کشی کے لئے استعمال کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر شعراء یا تو حسن و عشق کی داستاں بیان کرکے شاعری میں نام کمالیتے ہیں یا پھر حمد و نعت و منقبت لکھ کر مذہبی شاعری کی حیثیت سے اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔ بیک وقت حسن و عشق کی کیفیات کو بیان کرنا اور روحانی فیوضات کی پیش کشی کی طرف توجہ دینا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں بلکہ جس شاعر کو خدا کی ذات کی طرف سے توفیق حاصل ہوتی ہے وہی اس تیز دھاری تلوارپراپنے قدم جماکر آگے بڑھ سکتا ہے۔ عصر حاضر میں بہ یک وقت روحانیت و جذباتِ دلی کو یک جا کرکے شاعری کے توسط سے بھی شہرت یافتہ ہستیوں میں حضرت سیدمحمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔ کچھوچھوی کا شمار ہوتا ہے جن کاشعری مجموعہ ’’تجلیات ِسخن‘‘ کے زیرِ عنوان دو مختلف طرزِ اظہار کی نمائندگی کرتا ہے۔ چنانچہ ’’تجلیات ِسخن ‘‘کا ایک حصہ’’بارانِ رحمت‘‘ کے زیر عنوان آغاز سے۱۳۵ صفحات کی نشاندہی کرتا ہے جب کہ اسی تجلیات کا دوسرا پارئہ دل ۱۳۶ سے لے کر۳۵۴ صفحات تک غزلوں ‘نظموں‘اور حسن و عشق کی باتوں سے مالامال ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔ کچھوچھوی کی شعر گوئی نے اردو کے غزل گو شعراء کی طرح معاملہ بندی کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کے ساتھ عشق رسول کی گرمی شاعر کی شاعری سے دسترس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے’’تجلیات ِسخن ‘‘ کے ذریعہ دلی کیفیات کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ مدح رسول کا بھی حق ادا کیا ہے۔ ’’بارانِ رحمت‘‘ کا آغاز ذکر و تعارف سے ہوتا ہے جسے حضرت سید محمد حسن مثنیٰ انورؔ نے تحریر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت‘ شعریت کلاسکی ادب کی جگمگاہٹ کا باہمی امتزاج علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔ کچھوچھوی کا ورثہ ہے۔ اسی طرح پارئہ دل کی شاعری پر ڈاکٹر سید امین اشرف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان حقیقتوں کی نمائندگی کی ہے جوعلامہ محترم اخترؔ کچھوچھوی کی غزل گوئی کی خصوصیت ہے۔ انہوں نے بجا طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے شعری پل صراط سے صحیح و سلامتی سے گزرنے کا اہتمام کرلیا ہے جس کی وجہ سے ان کی غزلوں میں حسن و عشق کی چاشنی موجود ہونے کے باوجود عارفانہ نظر درحقیقت شاعر کی کیفیاتی خصوصیت کو اجا کرنے میں کامیاب ہے۔ یہ بھی اہم خوبی ہے کہ اختر ؔکچھوچھوی نے فلفسیانہ افکارکو بھی غزل کی شاعری کے ذریعہ پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔنہ صرف زبان و بیان پر قد رت رکھتے ہیں بلکہ علم ِ عروض پر ان کی کامل دسترس کا اندازہ ہوتا اس کے علاوہ زندگی کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے وہ خالص قرآنی و اسلامی نظریہ کی نمائندگی پر توجہ دیتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شاعری کو محتاط رویے کے ساتھ پیش کیا اور شاعرانہ بو قلمی کو غیر ضروری تصور کرتے ہوئے حقیقت کے انکشاف پر خصوصی توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر شاعری میں ایک ہی روح کار فرما نظر آتی ہے جسے قرآن و اسلام کی روح سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور جس ذات کی فطرت میں ایسی خو شامل ہوجائے اس کی زبان سے خدا تعالیٰ اس قسم کے شعر کو پیش کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔ چنانچہ حضرت اختر ؔکچھوچھوی فرماتے ہیں۔
زندگی ہے بے نیاز زندگی ہونے کا نام
موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا ہوش ہے
اس شعر میںجس انداز سے زندگی اور موت کے فلسفہ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے خود شاعرکے فکری سطح کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ قیاس کرنے میں کوئی تعامل نہیں ہوتا کہ حضرت علامہ اخترؔ کچھوچھوی کی شاعری چاہے حسن و عشق کا بیان ہو یا عرفانیات کا د فتر بہر حال اس کلام کو حقیقت میں’’تجلیات ِسخن‘‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ شعری مجموعہ کے نام کی حیثیت سے’’تجلیات ِسخن‘‘ کا انتخاب کرکے شاعر نے اپنی حسی اور فکری سطح کو نمایاں کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اسی لئے اس شعری مجموعہ کو صرف دل و دماغ روشن کرنے والی ہی شاعری نہیں بلکہ جذبات و احساسات سے بھر پور فکری خصوصیت کی علم بردار شعر گوئی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور یہ بھی خصوصیت شاعر کی علم بردار ہے کہ’’ تجلیاتِ سخن‘‘ کے توسط سے شاعرنے غزلیہ اور نظمیہ انداز کو روا رکھنے کے ساتھ ساتھ حمد و نعت و منقبت کے علاوہ غزل کے لب و لہجہ کا سہارا بھی لیا ہے۔لیکن آپ کی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ کہیں بھی سطحی و عامیانہ خیالات کی پیش کشی اور رنگینی و رعنائی کی نمائندگی کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ غزل کی شاعری میں بھی حکیمانہ بصیرت کو شامل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بندئہ مومن کا دل جب خدا سے لو لگا لیتا ہے تو پھر ہر موجود میں اسے جلوئہ خداوندی محسوس ہوتی ہے اور اسی نمائندگی کا اظہار’’تجلیاتِ سخن‘‘ کی شاعری کا موثر انداز ہے جس میں شاعر محترم نے علامہ اقبالؔ کے رنگ سے بھی استفادہ کرکے فکر کی بالیدگی کا ایسا سامان فراہم کیا ہے کہ جس کے توسط سے شاعر کی الہامی فکر کی نشاندہی ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر باکمال نے مشقت اور کڑی محنت کے توسط سے جس قسم کے کلام کو عوام کے روبرو پیش کیا ہے وہ عارفانہ مزاج اور حکیمانہ خیالات کی بھی بھر پور نمائندگی کرتا ہے جس کا ثبوت ’’تجلیاتِ سخن‘‘ کی شاعری میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔
حضرت اختر ؔکچھوچھوی نے ذریعہ اظہار کے لئے خاص طور پر غزل کے مزاج کی طرف توجہ دی ہے۔ البتہ مسدس ‘ مخمس کی ہیئت کو بھی کام میں لایا ہے حکیمانہ شاعری ہو یا رندانہ طرز اندازحضرت اختر ؔکچھوچھوی کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے جس روانی کے ساتھ تخئیل کو شعری وسیلہ سے استعمال میں لایا ہے اس رویے میں ہر شعر رواں اور آمد ہی آمد کی نمائندگی کرتا ہے۔’’تجلیاتِ سخن‘‘ میں کہیں آورد کی کیفیت دکھائی نہیں دیتی حمد ونعت و منقبت لکھنے کے دوران بھی الفاظ کے درو بست اور اظہار کی کیفیت کو روانی کے ساتھ بیان کرنے کا حسن حضرت اخترؔ کچھوچھوی کی شاعری کے امتیازی خصوصیت ہے۔ شاعری میں روانی اور اظہار کو تاثیر سے وابستہ کرنے کا عمل اُن شاعروں کا حصہ ہوتا ہے جو قدرتی طور پر شعر گوئی کو اپنی فطرت کا حصہ بناتے ہیں ورنہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اس انداز کے شعر لکھنا مشکل ہے جو حضرت علامہ اخترؔ کچھوچھوی کی شاعری میں اپنے جملہ اوصاف کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اگر چہ’’تجلیات ِسخن‘‘کا ابتدائی حصہ حمد و نعت و منقبت پر مشتمل ہے لیکن اس میدان میں بھی حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے جس قسم کے دل کو چھولینے والے اشعار لکھے ہیںاس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری انہیں نہ صرف ورثے میں ملی ہے بلکہ خود اس خداداد صلاحیت کا وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اظہار کرتے ہیں ۔چنانچہ بارگاہِ نبوت میں اپنی انکساری کو ظاہر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔ ؎
آج کچھ حد سے فزوں سوزِ نہانی ہے حضور
مضمحل میری طبیعت کی روانی ہے حضور
در پہ لایا ہوں خدارا گرفتار کرلو
نفس ِبد مر ا بڑا دشمن جانی ہے حضور
کھو جاؤں میں خیالات کی تاریکی میں
نور کی شمع مرے دل میں جلانی ہے حضور
شاعر نے حضور کی ردیف کو نبھانے کے لئے جس قسم کے عمدہ خیالات کو اظہار کا ذریعہ بنا کر اشعار میںکیفیاتی فضا ء پیدا کی ہے ان کے دلی جذبات کی نمائندگی کرنے والی نعتیہ کیفیات کی شاعری کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ ؎
نہ رکھا ذہن میں اندیشئہ سود و زیاں ہم نے
یہی با عث ہے پایا خود کو ہر جا کا مران ہم نے
کیا ہے یہ بھی اک احسان باغباں ہم نے
چنا ہے ترے گلشن کو برائے آشیاں ہم نے
ہمارے جان و دل میں روح عالم رقص کرتی ہے
خود اپنی ہست کو پایا ہے رازِ کن فکاں ہم نے
فلک والوں سے پوچھو ننھے ننھے تارے شاہد ہیں
زمیں پر بھی بنائے ہیں ستاروں کے جہاں ہم نے
کہاں تک داستاں اپنی سنائیں مختصر یہ ہے
دیا سارے زمانے کو پیامِ جاوداں ہم نے
غزل کی پہنچ میںنظمیہ انداز ِخیال اور روانی کے ساتھ بیان کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے اپنی انا سے بے نیازی کے ساتھ مومن کی شان کو شاعر نے کلام میںبیان کیا ہے اس سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کی ذ ہنی وسعت اور خیال کی باریکی کے حسین امتزاج سے’’ تجلیاتِ سخن ‘‘کا وجود عمل میں آیا ہے جس میں شاعرانہ حسن کاری کے ساتھ ساتھ علم عروض کی شاندار روایات کا ایسا وصف موجود ہے کہ جس کی وجہ سے اس شاعری کو والہانہ کلام کے نام سے معنون کیا جاسکتا ہے۔ جس دل میں خوف خدا ورحب ِرسول موجود ہوتا ہے اس دل کی کیفیت کا اظہار ’’تجلیات ِ سخن‘‘ کی شاعری ہے۔اس خوبی کو بھی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے غزل کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے نعتیہ کیفیات ‘منقبتی انداز اورحمدیہ اشارات کو تخئیل کے توسط سے اس طرح سجایا اور سنوارا ہے کہ ایک ایک شعر محبت میں غرق اور خدا کی وحدانیت کی بشارت پیش کرنے کا وسیلہ بن جاتاہے۔غرض ’’تجلیاتِ سخن ‘‘کی شاعری دل کی دنیا کو سنوارنے اور روحانی درجوں کو بلند کرنے کا بہترین وسیلہ قرار دی جاسکتی ہے۔جس میں تاثیر کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ قلبِ ماہیت کا اثردکھانے کی خوبی بھی موجود ہے۔ جس طرح حمد و نعت و منقبت کے ساتھ شاعر نے روحانی مدارج کی نشاندہی کی ہے اسی طرح غزل کی شاعری میں پاک اور مطہر جذبات کے ذریعہ خیال کا ایسا ایوان سجایا جس میں تہذیب و اخلاق کی خو بو بسی نظر آتی ہے۔ حضرت اخترؔ کچھوچھوی نے غزل کی شاعری کو ناصحانہ اور مربیانہ خیالات سے پاک کرکے روایتی حسن و عشق سے بے نیازی اختیار کی ہے اور مظاہر ِ کائنات کے علاوہ خدا کے حسن کو جلوؤں کی تعریف کو غزلیہ شاعری کا وسیلہ بنا کر ایسی خوب صورت شاعری کی بنیاد رکھی ہے جس میں نہ تو سطحی خیالات کا اثر دکھائی دیتا ہے اور نہ اوچھے خیالات دکھائی دیتے ہیں۔ بلا شبہ اس قسم کی شاعری کو کسی پیر طریقت کی نگاہ نوازی سے تعبیر کیا جائے گا ۔جس طرح ’’ تجلیات سخن کا ابتدائی حصہ ’’ بارانِ رحمت کی نشاندہی کرتا ہے اسی طرح آخری حصہ’’ پارئہ دل‘‘ کے توسط سے شاعر کے دلی جذبات کی نشاندہی سے وابستہ ہے اور شاعر جن خیالات کا اظہار کرتا ہے اسے سمجھنے کے لئے ایک شعر کا اشارہ کافی ہے۔ ؎
جب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی
با خدا لذت ِ زندگی مل گئی
مسکرائی کلی دل کے غنچہ کھلے
ترا غم کیا ملا زندگی مل گئی
غالباََ کوئی جانِ بہار آگیا
ہر کلی کے لبوں کو ہنسی آگئی
ان کے در پہ جبیں کو جھکانہ ہی تھا
گلشنِ قلب کو تازگی مل گئی
شاعرانہ افکا رغزل کے توسط سے جس اونچی فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس میںشاعر کے مزاج کی وابستگی کوبھی دخل ہے اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ اخترؔ کچھوچھوی گو مذہبی شاعری کے روح ِرواںہیں لیکن غزل کی زمین میں بلند خیالی اور حسن آفرینی کو جگہ دیتے ہوئے کیفیتوں کو نمایاں کرنے کاایسا سلیقہ رکھتے ہیں جن کی وجہ سے شاعری عشقِ مجازی سے نکل کرعشق ِحقیقی کے سرحدوں کو چھو لیتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے حسن آفرینی کے لئے غزلیں نہیں لکھیں بلکہ دل کی دنیا سجانے کے لئے افکار کی دل بستگی کا سہارا لیا ہے۔ان کی شاعری میںحسن آفرین سے زیادہ وابستگی کا جذبہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اختر ؔکچھوچھوی نے جتنی بھی غزلیں لکھیں ان میں دلی کیفیت کو بھر پور نمائندگی دی گئی ہے۔ ہر غزل اپنے اندر اظہار کے تمام وسعتوں کو پیوستہ کرکے سماں باندھنے کی صلاحیت سے معمور ہے۔بحروں کے انتخاب اور لفظوں کے دروبست سے سماں باندھنے کاکام انجام دیتے ہیںجس کی وجہ سے شعر میںمعنویت کے ساتھ ساتھ تاثیر کا حسن بھی نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اس کیفیت کو محسوس کرنے کے لئے ایک غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں جو مختصر بحر کی نمائندگی کرتے ہوئے کیفیتوں کو لفظوں میںسمونے کا ہنر پیش کرتے ہیں۔ ؎
چھوڑ دوں گا میں آستانے کو سن تو لیجئے مرے فسانے کو
عشق کی اصطلاح میں ہمدم موت کہتے ہیں مسکرانے کو
آنکھ سے اشکباریوں کے لئے دل ہے چوٹوں پہ چوٹ کھانے کو
ہو مبارک مری خودی مجھ کو حسن آیا ہے خود منانے کو
روانی اور تسلسل کے ساتھ ساتھ جس حسن کاری کوحضرت اخترؔ کچھوچھوی نے غزل کی دنیا میں شامل کیا ہے وہ درحقیقت اظہار کا ایسا پیرایہ ہے جسے بلا شبہ ریاضت کی دین قرار دیا جائے گا۔علامہ اخترؔ نے مردف غزلوں کے ساتھ غیر مردف غزلیں بھی لکھیں ہیں۔مختصر بحروں میں وہ جس حسن کاری کے ساتھ غزل گوئی کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں اسی خوبی کے ساتھ طویل بحروں سے وابستہ ان کی غزلوں میں فنکارانہ حسن کی مثالیں بھی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ طویل بحر میں لکھی ہوئی ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
قیس و فرہاد نے کھول کر رکھ دیا عشق آساں
نہیں ہر کسی کے لئے
دل لگی کو نہ سمجھے کوئی د ل لگی‘
دل بڑا چاہئے دل لگی کے لئے
کوئی ہے عقل والا جو سمجھاسکے اس میںآ
کیا درس ہے آدمی کے لئے
شمع اپنا کلیجہ جلاتی رہی کیوں
کسی اور کی روشنی کے لئے
جو ہو آفاق میں وجہ نور سحر
اس کی آمد کوسمجھو نہ آسان تر
سارے تاروں نے خود کو فنا کردیا
ایک خورشید کی زندگی کے لئے
کون کہتا ہے ناداں ہیں اہل وفا‘ سیکھ لو
ان سے رازِ فنا و بقا
ہوگئے با خوشی نذر ِتیغ جفا‘
کس لئے دائمی زندگی کے لئے
اے مر ی جان کہتے ہیں اہلِ کرم
دل کا رکھ لینا ہے گویا حج حرم
خواب ہی میں بس اک بار آجایئے
اپنے اختر ؔکی خوش اختری کے لئے
غزل گوئی کے ساتھ ساتھ حضرت سید محمد مدنی اشرفی جیلانی نے ’’تجلیاتِ سخن‘‘ میں قطعات اور بند نظموں کی دنیا بھی سجائی ہے۔مسدس کے ہیئت میںنظموں کا رنگ بھی اپنی جگہ نمایاں ہے اس کے ساتھ ہی قطعہ نویسی میں بھی ان کا انداز منفرد نظر آتا ہے جس کی مثال ذیل کے مصرعوں سے دی جاسکتی ہے :۔ ؎
رات والے حامی انوار ہوسکتے نہیں
جو ہوں بد طینت وہ خوش اطوار ہو سکتے نہیں
ان خدایانِ چمن کو کیسے سمجھائے کوئی
عصمتِ گل کے محافظ خار ہوسکتے نہیں
عصمتِ گل کے محافظ خار ہوسکتے نہیں
شاعری کا وہ انداز جس کے ذریعہ شاعر روحانی مدارج طے کرتا ہے اور اپنی ذات میں حب ِنبوی کو شامل کرکے اس کیفیت پر نہ صرف فخر کرتا ہے بلکہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ جلوئہ خداوندی صرف اس وجہ سے اس کی ذات کا حصہ بن سکتا ہے کیوں کہ وہ حبِّ نبوی سے سرشار ہے۔حبِّ نبوی ہی کو سب کچھ سمجھنااور اس کے توسط سے قربِ خداوندی کے حصول کو لازمی قرار دیتے ہوئے جس منظر نگاری کو کام میں لاکر حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی اخترؔکچھوچھوی نے شاعری کی ہے اس کے ہر شعر سے روحانی کسب کی شان نمایاں ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے شاعر نے جذبات کی زباں نہیں بلکہ محبت کی کیفیت کو اپنے قابو میں کرلیا ہے تب کہیں نعت گوئی کے لئے ایسے الفاظ شاعری کی فکر کا وسیلہ بنتے ہیں۔ اس قسم کی کیفیت کو محسوس کرنے کے لئے علامہ مولانا اخترؔ کچھوچھوی کے یہ شعر دیکھئے :۔ ؎
تیری چو کھٹ تک رسائی گر شہا ہو جائے گی
بے وفا تقدیر بھی پیک وفا ہو جائے گی ان کے در پرگر وفور ِ شوق میں سر رکھ دیا
ایک سجدے میں ادا ساری قضا ہو جائے گی
میں تو بس ان کی نگاہِ لطف کا مشتاق ہوں
غم نہیں گر ساری دنیا بے وفا ہو جائے گی
خیرامت کی سند سرکار سے جب مل گئی
میری قسمت مجھ سے پھر کیسے خفا ہوجائے گی
شاعری میں دل بستگی کا سامان اور اظہار کے منفرد رویہ کے ذریعہ ’’تجلیات ِسخن‘‘ کی غزل میں اخترؔ کچھوچھوی نے کمال ِفن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے جو شاعر فن کا‘ راز داں ہوتا ہے اس کی شاعری میں فنی خوبیاں تو رچ بس جاتی ہیں لیکن تاثیر اور بر جستگی نمایاں نہیں ہوتیں جب کہ اختر ؔکچھوچھوی کا کلام فن کی باریکی اور اظہار کی تاز گی سے معمور ہے اس لئے اس قسم کی شاعری کا اسقبال کیا جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment